ديوبند اكابر نے محمد صلى الله عليه وسلم كے سامنے بخارى شريف پڑهى :
پنجلاسه (پنجاب) ميں ايك بزرگ راؤ عبدالرحمن خاں نامى تهے, كشفى حالت ان كى بهى غير معمولى تهى , دروزه كے ليے تعويز لينے كے ليے كوئى آيا تو تعويز كے ساتھ كه ديا كرتے تهے كه لڑكا هو گا, يا لڑكى بعضوں نے پوچها آپ كو كيسے معلوم هو جاتا هے– تو بولے كيا كروں – پيدا هونے والے بچے كى صورت سامنے آجاتى هے–
بهرحال اكابر ديوبند خوصاً شيخ المشائخ حضرت حاجى امداد الله سے ان كے بڑے تعلقات تھے– خود سيدنا الامام الكبير ان سے ملنے كے لئے پنجلاسه جايا كرتے تهے– پهلے حج كے سفر كے موقعه پر بهى حاضر هوئے اور راؤ صاحب سے مولانا نے عرض كيا كه ميرے لئے دعا فرمائيے يه سن كر راؤ صاحب نے فرمايا كه
"بهائى تمهارے ليے كيا دعا كروں– ميں نے اپنى آنكهوں سے تمهيں دونوں جهان كے بادشاه (رسول صلى الله عليه وسلم) كے سامنے بخارى شريف پڑهتے هوئے ديكها هے-” ارواح ص193
پردادا صاحب توكيرانه اور شاملى كے درميان جهاں پخته سڑك هے شهيد هوئے اور وهيں پر پير سماءالدين صاحب كے مزار كے پاس دفن كئے گئے– اور شروع ميں بهت عرصه تك انكا عرس بهى هوتا رها– كسى بارات ميں تشريف ليجا رهے تهے كه ڈاكوؤں نے آكر بارات پر حمله كيا ان كے پاس كمان تهى اور تير تهے– انهوں نے أن ڈاكوؤں پر دليرانه تير برسانا شروع كئے– چونكه ڈاكوؤں كى تعداد كثير تهى اور ادهر سے بے سرو سامانى تهى يه مقابله ميں شهيد هو گئے اور اس حديث شريف كے مصداق هو گئے
شهادت كے بعد ايك عجيب واقعه هوا– شب كے وقت اپنے گهر مثل زنده كےتشريف لائے اور اپنے گهر والوں كو مٹهائى لا كر دى اور فرمايا كه اگر تم كسى سے ظاهر نه كروگى تو اسى طرح روز آيا كريں گے ليكن ان كے گهر كے لوگوں كو يه انديشه هوا كه گهر والے جب بچوں كو مٹهائى كهاتے ديكھيں گے تو معلوم نهيں كيا شبه كريں اس لئے ظاهر كر ديا اور پهر آپ تشريف نهيں لائے– يه واقعه خاندان ميں مشهور هے.